عنوان پایاننامه
نگاهی بر زندگی شخصی و شاعری پروین شاکر
- رشته تحصیلی
- زبان و ادبیات اردو
- مقطع تحصیلی
- کارشناسی ارشد
- محل دفاع
- کتابخانه دانشکده زبانها و ادبیات خارجی شماره ثبت: 2/1769;کتابخانه مرکزی -تالار اطلاع رسانی شماره ثبت: 66200
- تاریخ دفاع
- ۳۱ شهریور ۱۳۹۲
- دانشجو
- مرجان کمالی
- استاد راهنما
- وفا یزدان منش
- چکیده
- پروین شاکر ستارہ درخشان ادب اردو و شاعرہ محبت می باشد. در ادبیات اردو نام او بنابربسیاری از دلایل ادبی و لسانی حائز اهمیت است. شروع شاعریش در دورہ ای از قرن بیستم میباشد که مطابق با گفته خودش در نظر بسیاری از عوام شاعری زن از عجائب روزگار بشمار می آمد .مجموعه اشعارپروین شاکر گلستانی است که رایحه دلپذیر مشام را می نوازد. پروین شاکر در اشعار خود به موضوعاتی اشاره می کند که پیش از او هیچ شاعره اردو زبانی به این موضوعات نپرداخته است.پیش از پروین شاکر تنی چند از شعرای زن به موضوع زن در اشعار خود پرداخته بودند اما با این وجود صدای زنانه پروین شاکر شهرت زیادی یافت. دلیل این اهمت این است که پروین شاکر در اشعار خود به مسائل زنان با تمامی جوانب آن اشاره نموده است.از دختران نوجوان معصوم گرفته تا زنان بالغ در مقام همسر و تا مقام شامخ مادری. او در اشعارش نماینده تمام زنان در تمامی مقاطع زندگیشان گردیده است.پروین شاکر از تمامی احساسات،تصورات،تفکرات،تجارب و آرزوهای زنان در هر برهه از زندگیشان پرده گشایی می کند.همگام با مسائل زنان آشوبها و نا آرامی های اجتماعی و سیاسی نیز دغدغه فکری او می گردد.یکی از رویاهای او این است که جامعه ای همچون گلستان بسازد که مملو از خوبی،نیکی و راستی باشد.برای تحقق این رویا وساخت چنین گلستانی دستان باغبانی را میطلبد که هر آنچه زاید و مضر باغ است رابزداید.حظور پروین شاکر در این مقطع از اشعارش بسان باغبانی است که زشتی ها و پلیدیها را با داس شاعری خود قلع و قم می نماید.راهی بس دشوار پیش روی اوست اما آنچه در این مسیر به یاری اش می شتابد عشق است.او ذاتا عاشق است و این عشق همسفر و یاور اوست.علاوه بر این ذوق شاعری نیز در ناخودآگاه وجودیش نهفته است.کلامش مجموعه ای از صناعات گوش نواز و دلنشین می باشد.او با زبانی عاری از هر گونه پیچیدگی سخنان برآمده از دلش رابیان می کند.در کنار ذوق شاعری تحصیلات بالای پروین شاکر در موفقیتش نقش بسزایی دارد.مضاف بر سخنان پیش گفته یکی ازخصوصیاتی که بر اهمیت و مقبولیت شاعری او بیش از پیش می افزایداین است که اشعار پروین شاکر آیینه تمام نمای زندگی شخصی و جامعه اوست.در جای جای مجموعه اشعار او تصاویری از زندگی شخصی او ونیز اوضاع سیاسی،فرهنگی واجتماعی آن زمانه در ذهن مخاطب تجسم می یابد.او در اشعارش نه تنها به اوضاع اجتماعی و سیاسی و اقتصادی شبه قاره پرداخته بلکه نگاهی بر اوضاع سیاسی و اقتصادی و اجتماعی در سطح جهانی نیز داشته است.
- Abstract
- ارد و شاعری میں پروین شاکر کوخاصّی اہمیت اور مقبولیت حاصل ہے جس کی بنیاد بہت سی ادبی اور لسانی وجوہات پر ہیں- وہ بیسویں صدی کے اس وقت کی شاعرہ ہیں جن کے کہنے کے مطابق لوگوں کے ہاں شعر کہنے والی عورت کا شمار عجائبات میں ہوتا تھا–ان کا مجموع? کلام پھولوں کا مجموعہ ہےجس سے سراسر خوشبو آتی رہی ہے –انہوں نے اپنی شاعری میں انہی مسائل کا بیان کیا جن سے پہلے کسی خاتون شاعرہ نے اشارہ نہیں کیا تھا – پروین شاکر سے پہلے دوسری شاعرات نے عورت کے مسائل کا اپنے کلام میں بیان کیا تھا لیکن پروین شاکر کی نسوانی آواز کو عام شہرت ملی کیونکہ انہوں نے نسوانیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا- عورت کے احساسات و واردات، تصوّرات و توہمات ،خواب و خیالات اور جذبات و تجربات ان سب کی کیفیات سے وہ پردہ اٹھاتی ہیں- ساتھ ساتھ اجتماعی ،معاشرتی اور معاشی الجھنیں بھی ان کی شاعری کا مقصد بن گئیں-ان کا کلام خوبصورت صنائع اور بدائع کا مجموعہ ہے - شاعری کے ذوق کے علاوہ وہ پڑھے لکھے خاتون ہیں جن کی شاعری پر بہت اثرگذارہے- ان خصوصیات کے علاوہ جو خصوصیت ان کی شاعری کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے یہ ہے کہ ان کے کلام میں ان کی ذاتی زندگی اور معاشرے کی حقیقی تصاویر بکھری ہوتی ہیں-چنانچہ ان کے اشعار کے ذریعے ان کے عہد کے سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی حالات کا سراغ ملتاہے-نہ صرف برّصغیر کے معاشی اور معاشرتی حالات بلکہ ملک سے باہر کے سیاسی اور تہذیبی حالات پر وہ نظر ڈالتی ہیں - کلیدی کلمہ:اردوخواتین شاعرات،پروین شاکر،نسوانی آواز،معاشرہ،مذہب،عشق ومحبت،قنوطی رنگ،صنائع و بدائع مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْمُنْعِمْ مِنَ الْمَخْلوقینْ لَمْ یَشْکُرِ اللَّه عَزَّ وَ جَلّ اظہارتشکر: میں اپنے مقالے کی تیاری کے سلسلے میں اپنی محترمہ نگران استاد ڈاکٹر وفا یزدان منش کی بے حد شکرگزارہوں جن کی رہنمائی کے بغیر یہ مقالہ پایہ تکمیل کو پہنچنا مشکل بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ ناممکن تھا? یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی زیر نگرانی مجھے ایم –اے کا تحقیقی مقالہ تحریر کرنے کا موقع ملا –ان کی ناقدانہ بصیرت اور تحقیقی منہاج نے مجھے بہت متاثّر کیا اور انہوں نے بہت سےمصادر اور منابع کی جانب میری توجہ دلائی - میں ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے? اس سلسلے میں محترم استادمشاورڈاکٹر علی بیات صاحب کا شکریہ ادا کرنا بھی بے حدضروری ہے کیونکہ انہوں نے اس مقالے کی تیاری کے دوران ہمیشہ میری مدد کی اور اپنے مفید مشوروں سے مجھے نوازا? ان کے علاوہ شعبہ اردو کےاساتذہ محترمہ ڈاکٹر زیب النساء علیخان، محترم جناب ڈاکٹر محمد کیومرثی ، محترمہ ڈاکٹرفرزانہ اعظم لطفی کی ممنون ہوں -اگر مقالے کی تیاری کے سلسلے میں جناب پروفیسر تحسین فراقی ،ڈاکٹر رفاقت علی شاہد اور جناب کاووسی کا شکریہ ادا نہ کیا جائے تو بڑی ناانصافی ہوگی کیونکہ ان تینوں صاحبان نے بھی اس مقالے کی تیاری میں میری مدد کی اور اپنا قیمتی وقت دیااورمجھے پاکستان سے بہت سی کتابیں فراہم کیں? میں اپنے قابل صد احترام والدحسینعلی کمالی صاحب اور اپنی جان سے عزیزفرشتہ صفت ماں زمرّد کریمی کےہاتھوں پر بوسہ دیتی ہوں جن کی دعائیں ہمیشہ میرے شامل حال رہیں اور مجھے اپنا کام جاری رکھنے کا حوصلہ ملتا رہا?تعلیم کے راستےمیں میرےماموں جناب حسین قدوسیان صاحب اور میری خالہ مریم قدوسیان صاحبہ نے میرا بہت ساتھ دیا ہے اگر میرے یہ چارعزیز نہ ہوتے تو میں کبھی اس مرحلے تک نہ پہنچ پاتی –اللہ کی بارگاہ میں سجدہ کرتی ہوں جس نے ایسے جان نثار عزیزوں کو میری زندگی میں شامل کیا ہے- یہاں ضروری ہے کہ میں پاکستانی خاتون شاعرہ محترمہ نیلما ناہید درّانی صاحبہ کا شکریہ ادا کروں-جن کی فرمائشات سے نہایت مستفید ہوئی-