عنوان پایاننامه
بررسی تحقیقی رمز و نماهای عرفانی در مثنویات غالب دهلوی و عطار نیشابوری
- رشته تحصیلی
- زبان و ادبیات اردو
- مقطع تحصیلی
- کارشناسی ارشد
- محل دفاع
- کتابخانه دانشکده زبانها و ادبیات خارجی شماره ثبت: 1622/2;کتابخانه مرکزی -تالار اطلاع رسانی شماره ثبت: 57661
- تاریخ دفاع
- ۱۱ مهر ۱۳۹۱
- دانشجو
- مهسا عربی
- استاد راهنما
- فرزانه اعظم لطفی
- چکیده
- صحبت از تجارب عرفانی توسط شعرای ملل در ادبیات جهان پدیده ای شناخته شده است . در زبان عرفانی مهمترین عنصر نماد پردازی است که مقصود اصلی ، ظاهر و صورت کلام نیست ، بلکه مفهومی ورای ظاهر و عمیق تر از آن است . شعر عرفانی قسمت عظیمی از سرمایه ی ادبیات فارسی را تشکیل می دهد و اشعار عطّار نیشابوری از شاعران شوریده سر قرن ششم هجری در آمیخته شدن عرفان و تصوف با شعر فارسی نقش مهمی ایفا کرده است در آثار منظوم عطّار بخصوص در مثنوی های او بیش از هر شاعر دیگری به توضیح اصطلاحات و نمادهای عرفانی پرداخته شده است . در حقیقت عطّار میراثی ارزشمند از خود برجای گذاشت که استفاده از آن مختص به عارفان شاعر و شاعران عارف نشد و تمام جغرافیای ادبیات فارسی را دربرگرفت و سایر شعرای فارسی گو خواسته یا ناخواسته از آن استفاده کردند. غالب دهلوی از شاعران فارسی گوی قرن سیزدهم هجری در هند است.غالب اغلب آثار شاعران بزرگ فارسی را مطالعه کرده و ازآن ها بهره ها برگرفته است اما در بکارگیری اصطلاحات عرفانی فقط تابع گذشتگان نبود و در این زمینه نوآوری هایی داشت . عطّار و غالب هر دو فرزند دوره هایی پر آشوب از تاریخ هستند که فرهنگ و ارزشهای کشورشان پایمال می شود با این تفاوت که در زمان عطّار مهاجمان ، مغولان ساکن شرق اند و در زمان غالب انگلیسی های استعمارگرغرب . نقش این دو شاعر در حفظ و حراست از زبان فارسی عصر خود انکار ناکردنی است بخصوص که به دلایل مختلف چاره ای جز سخن گفتن به شیوه رمز ندارند . آشنایی با این اصطلاحات می تواند ما را به تخیل وادارد ، از تجربیات زندگی روزمره جدا کرده و در معرض تجربه های فراتر قرار دهد. کلمات کلیدی: رمز ، علامت ، اصطلاحات عرفانی ، مثنوی ، عطّار ، غالب
- Abstract
- عالمی ادب میں شعرائے کرام کا صوفیانہ نظریات اور تجربات بیان کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، تصوف کی زبان میں علامت نگاری انتہائی اہمیت رکھتی ہے البتہ اس کا مقصد اصلی لفظ کے ظاہر ی معنی نہیں بلکہ اس کے معنی میں بہت ہی مختلف معانی ہوتے ہیں ، صوفیانہ اور عارفانہ کلام ، فارسی ادب کا بہت ہی عظیم سرمایہ ہے، چھٹی صدی کاشاعر' عطّار نیشابوری 'کے اشعار میں عرفان و تصوف فارسی ادب کی ترقی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ?دیگر شعراء کے مقابلے میں عطّار کے منظوم کلام میں خاص طور پر ان کی مثنویوں میں عرفانی اور صوفیانہ اصطلاحات اور علامتوں کا استعمال بہت اچھے طریقے سے کیا گیا ہے? در حقیقت عطّار نے قیمتی ورثہ چھوڑا ہے جو صرف صوفیانہ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مختص نہیں ہے ? فارسی ادب کے تمام گوشوں کا احاطہ کر رکھا ہے اور تمام فارسی گو شعراء نے خواہ مخواہ اس کی پیروی کی ? غالب دہلوی تیرھویں صدی کے فارسی گوہندوستانی شاعر ہے ? غالب نے تقریباً سبھی بڑے فارسی گو شعراء کے کلام کا مطالعہ کرکے مستفید ہو گیا ہے ، لیکن صوفیانہ اصطلاحات کے استعمال میں وہ مکمل طور پر ماسلف شعرا ء کے پیروکار نہیں رہے? بلکہ انہوں نے جدّت طرازی سے کام لیاہے ، عطّار اور غالب دونوں ہی تاریخ کے پرآشوب دور کے وارث ہیں اور دونوں ہی کو اپنے اپنے ملکوں کے اقدار کی پامالی کا سامنا رہا ہے? فرق صرف یہ ہے کے عطّار کے دور میں ایران کو زیادہ تر مشرقی سامراج یعنی مغلوں کا سامنا رہاجبکہ غالب کے ملک کومغربی سامراج یعنی بریٹانیا کا سامنا کرنا پڑا ہے ? دونوں شاعر وں نےاپنے دور میں فارسی ادب کے تحفظ میں اپنے ناقابل انکار کردار ادا کیا ہے اور مخصوص حالات کے تناظر میں ان دونوں کے پاس ، رمزیہ گفتگو یا علامت کے استعمال کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا ?اصل میں ان اصطلاحات سے واقفیت ہمیں تخیل کی دنیا میں لے جاتی ہے ، روزمرہ زندگی سے جدا کرکے ہمیں آگے کی طرف لے جاتی ہے ? کلیدی الفاظ: رمز ، علامت،عرفانی اصطلاحات، مثنوی ، عطّار ، غالب